یہ دیس ہمارا ہے؟

 فی زمانہ وطنِ عزیز میں جو حالات چل رہے ہیں ان کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔  حالانکہ  ہمارے ملک کے لوگ نماز روزہ زکٰوۃ  پر کافی توجہ دیتے ہیں۔ اور کسی کی تعریف کے لیے یہ کہنا کہ فلاں پنج وقتہ نمازی ہے کافی ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ نماز تو نیکی کا کم سے کم معیار ہے ۔ اس کا اصل مقصد تو روز مرہ زندگی میں اپنے خالق کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرنا اور  اپنی اور دوسروں کی زندگیاں آسان بنانا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کے اے لوگو اپنے شر سے دوسروں کو محفوظ رکھو۔ مگر آج جتنے نمازی ہیں وہ نماز پڑھ کر گویا  لوگوں کی طرف اپنے فرائض سے  دستبردار ہو جاتے ہیں۔   جبکہ حضور  صلی اللہ علیہ وآلہہ وسلم فرماتے ہیں  ہے کہ بندوں  کے حقوق کی پامالی کو اللہ تعالیٰ  اسی وقت معاف فرمائے گا جب وہ انسان جس کا حق مارا گیا ہے خود اس کو معاف کردے۔ مگر اکثر نمازی دیکھا گیا ہے کہ اپنی عبادتوں کا ان کو اس قدر غرور ہوتا ہے کہ گویا  اپنے زعم میں خدا کے اتنے لاڈلے ہو جاتے ہیں کہ کسی پر بھی کوئی بھی اپنی پسند کا فتویٰ دے کر اسے سزا دے سکتے ہیں۔ اس کی زندگی اجیرن کر سکتے ہیں۔  اسی صورت حال پہ علامہ قبال نے کہا کہ ،
غرور زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو
 کہ بندگانَ خدا پر زباں دراز کرے
نماز تو انسان میں فروتنی اور عاجزی پیدا کرتی ہے۔ جس انسان کا تکبر نمازیں پڑھ کر بھی نہ ٹوٹے اس  کی نمازیں اس کے منہ پر ماردی جاتی ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئیے۔
اس دور میں جس قدر دعویٰ ہماری قوم کو حب نبوی  صلیّ اللہ علیہ و آلہہ وسلم  کا ہے اس کا عشر ِعشیر ایمانی قوت کا مظاہرہ بھی ان کے عملوں میں نظر نہیں آتا۔ بلکہ اعمال ان کے کلیتہً  سنت نبوی  صلیّ اللہ علیہ و آلہہ وسلم کے مخالف ہیں۔  اگر یہ لوگ اپنے دعوے میں صادق ہوتے تو یہ قوم اخلاقی معاشی اور اقتصادی تباہی کے دہانے پہ نہ کھڑی ہوتی۔ کھڑی کیا  ہے بلکہ در حقیقت گر چکی ہے اور جاں بہ لب ہے۔ مگر نہیں جانتی کہ اس جہنم میں  یہ قوم خود  ہی کودی ہے۔  بس جاہلوں کی طرح دوسروں  کو لزام دیے جا رہی ہے۔ کبھی تو پکڑ  میں نہ آنے والے ملک دشمن عناصر  پہ الزام اور کبھی اس کو کافروں کی سازش کا نام دیا جاتا ہے۔ گویا مومنانہ فراست اور بصیرت کا تو سرے سے عمل دخل ہی نہیں اسلامی جمہوریہ ء پاکستان میں۔ اگر کوئی وہاں سر گرمِ عمل ہے تو صرف طاغوتی طاقتیں۔ اور مومن تو محض بے بسی کی علامت ہیں۔ قرآن اس بات کو رد کرتا ہے۔ مومن تو بے بس ہو ہی نہیں سکتا۔ بشرطیکہ وہ حقیقی مومن ہو۔  کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک مومن دس کافروں پہ بھاری ہو گا۔  جنگ بدر میں تین سو تیرہ صحابہ ء رسول   صلیّ اللہ علیہ و آلہہ وسلم  نہایت بے سرو سامانی میں بھی فتح مبین کے حامل ہوئے۔ کیا تھا ان کے پاس؟ صرف ایمان۔تو اس کا مطلب یہ ہوا  ہے کہ اس ملک میں اب اتنے بھی مومن نہیں رہے؟ تو یہ حب نبوی  صلیّ اللہ علیہ و آلہہ وسلم  کے بلند و بانگ دعووں کا شور کیسا؟ خد ا کے  حضور صرف دعوے نہیں چلتے۔ اعمال دیکھے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کھوٹے دعووں کو کھوٹے سکے کی طرح رد فرما دیتا ہے۔
آج یہ خود ساختہ مومنین جو ہر وقت اس فکر میں رہتے ہیں کہ  وہ کس کو اسلام سے خارج کر سکتے ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں میں قوم کے اخلاقی معیار کو اتھاہ پستیوں میں دھکیل چکے ہیں۔ آج پاکستان میں درندہ نما انسانوں کا راج ہے۔ جو آئے دن بربریت کی ایک  نئی داستان رقم کرتے ہیں۔ اور رفتہ رفتہ یہ دہشت گردی تمام قوم کی رگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے۔ جہاں جنگل کا قانون ہو وہاں ہر کسی کو اپنی حفاظت کے لیے کچھ تو کرنا پڑتا ہے۔  آج وہاں ، گو وقتی طور ہی ہی سہی مگر  وہی محفوظ ہے جو دہشت اور لوٹ مار کی اس لہر میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور اس طرح ساری قوم اس کا بچہ بچہ غیر محفوظ ہو گیا ہے۔  معصوم اور پھول جیسی ملالہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔
ابھی چند دن پہلے پاکستان سے ایک اور ایسی خبر ملی ہے  کہ انسان سکتے میں ہی آ جاتا ہے۔کیونکہ ایسی خبر نہ کبھی سنی اور نہ اللہ آئندہ کبھی سنوائے۔  ایک  خاندان اپنے کسی رشتہ داروں کے ہاں ایک روز قیام کے لیے گیا تو واپس آنے پر ان کے گھر پہ منار بنے ہوئے ا تھے اورا س پر مولویوں کا قبضہ تھا۔ ان کے استفسار پہ  وہ ملاکہنے لگے کہ اگر جان عزیز ہے تو یہاں سے فوراً چلے جاؤ۔ قارئینِ کرام! اندازہ کریں ان کی حالت کا۔ انہوں نے  ان کی منت کہ خدا کے لیے ہمیں کچھ کپڑے ہی لینے کی اجازت دی جائے۔ تو انہوں نے نہ جانے کس اسلامی حکم پہ عمل کرتے ہوئے ایسا کرنے سے بھی انکار کر دیا اور ان کو کہا کہ اگر جان عزیز ہے تو فورا وہاں سے چلے جائیں ۔ اب کو ئی بھی انسا ن جس کے دل میں ذراسی بھی انسانیت ہے معاملے کی سنگینی کو اچھی طرح محسوسس کر سکتا ہے۔  ان کی ساری زندگی کی جمع پونجی، ان کی زندگی بھر کی یادیں جس گھر اور املاک سے جڑی ہوئی تھیں ان کو یکلخت اس سے کاٹ دیا گیا۔اس خاندان کا صرف یہ قصور تھا  کہ وہ ایک ایسےمسلک سے تعلق رکھتا تھا کہ جس کو یہ تمام مومنین حب نبوی  صلیّ اللہ علیہ و آلہہ وسلم میں کافر قرار دے چکے ہیں۔ حالانکہ وہ لوگ تمام اسلامی شعارئر پر ان سے کہیں بڑھ کر عمل کرتے ہیں۔   ہر چند وہ  لوگ اللہ اور رسول   صلیّ اللہ علیہ و آلہہ وسلم کے ارشاد کردہ تمام تقاضے پورے کرتے ہےمگر وہ ملا کی اسلامی  تشریح کے تقاضے پورے نہیں کرتے اس لیے یہ مومنین  خدا اوررسول   صلیّ اللہ علیہ و آلہہ وسلم کی صریح نافرمانی کرتے ہوئے ان کلمہ گو یان  کو اسلام کے زمرے سے باہر کر چکے ہیں۔ اور دن رات اپنے علاقے میں ایسے لوگوں کو دھمکیاں دینا ان پر زندگی کا دائرہ تنگ کرنا ہی عین اسلام سمجھتے ہیں۔  اور ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو بڑے یقین سے یہ فتویٰ بھی دیتے ہیں کہ ہم اگر کوئی اور اسلامی عمل نہ بھی کریں اور محض ان کو گالیاں ہی  دیتے رہیں تو بھی  جنت میں جائیں گے۔ اِنَّا للہ وِ اِنّا للہ وَ اِ نّا اِلَیہِ راجِعُون۔  غیر مسلموں کو گلیاں دینا کب سے اسلامی تعلیم ہوئی؟  حضور صلیّ اللہ علیہ و آلہہ وسلم  کی طرف ایسی تعلیم منسوب کرنا کیا توہینِ  رسالت نہیں؟   مسلمان ہونے کا یہ شارٹ کٹ قرآن اور احادیث میں کہاں مذکور ہے؟ خدا کے احکامات میں تبدیلی کرنے کی وجہ سے ہی تو پہلی امتیں برباد ہوئیں۔ افسوس یہ ہے کہ گر ایسے لوگوں سے مکالمہ کرنا چاہو تو عقل اور اخلاق کے ادنیٰ معیار کو بھی بروئے کار نہیں لاتے اور گالی گلوچ  شروع کر دیتے ہیں۔ذرا سے اختلاف پر اپنے آپے سے باہر ہو کر ہر دلیل ہر اخلاقی پہلو ہاتھ سے چھوڑ کر درندوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ خود ہی نہایت غیر اسلامی ان سنے فتوے اور سزائیں تجویز کر کے ان کو حرفِ آخر قرار دے دیتے ہیں۔
دوسرا واقعہ ایک اور شخص کا ہے اس نے انتہائی ضرورت کے تحت اپنا گھر اصلی قیمت سے چوتھائی قیمت میں اونے پونے بیچا تو علاقے کے بھتہ خور پہنچ گئے کہ اتنے لاکھ ہمیں بھی دو۔اس نے کہا کس بات کے۔ تو نہایت ڈھٹائی سے کہنے لگے ہماری کمیشن ہے۔  آپ نے ہمارے علاقے میں مکان بیچا ہے۔ایک بار پھر  اِنَّا  لِلّٰلہ۔
اگر ہم  پاکستان  کے قیام کی تاریخ کا حال  اور پھر گزشتہ  پانچ چھ دہائیوں پر نظر ڈالیں تو  بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ پاکستان اس وقت کون سے لوگوں کے ہتھے چڑھا ہوا ہے۔  موجودہ سیاسی پارٹیوں میں کثریت ان لوگوں کی ہے جو اس مسلم لیگ سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں گاندھی جی نے اصل مسلم لیگ کے مقابلے پر انگریزوں کا منہ بند کرنے کے لیے نےبنایا تھا ا ور  انگریزوں کا منہ بند کرنے کے لیے کہا تھا کہ ،مسلمان؟ وہ تومیرے ساتھ ہیں۔ جس پرا س وقت کے انگریزی حکمران نے کہا تھا کہ میں ان مسلمانوں کی بات کر رہا ہوں جو محمد علی جناح کی مسلم لیگ میں ہیں۔
  یہ لوگ تو پاکستان کو پلیدستان کہتے تھے۔لیکن جب پاکستان  معرض وجود میں آ گیا تو یہ منافقین بھی بھیس بدل کر  بستر باندھ کر  ا س غرض س یہاں آ وارد ہوئے کہ اس کی جڑیں کھوکھلی کریں۔ اور موقع ملتے ہی اپنے آقاؤں کے‌حکم پر  سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سازش کر کے اقتدار پر کنڈلی مار کر بیٹھ گئے اور لگے قوم کی رگوں میں زہر بھرنے۔ آج بھی یہ رہتے تو پاکستان میں ہیں  مگران کے وظیفے  یا کمیشن دوسری طرف سے آتی ہے۔  یہ پاکستانی حکومت میں بیٹھ کر ان کی مرضی ا ور سہولت کے منصوبے بناتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔ اپنی ہی اراضی اور دریا ان کے تسلط میں دے کر اپنی قوم کے مستقبل کی تابوت میں آخری کیل تو گاڑ ہی چکے ہیں۔  مگر اس طرح دوسرے ممالک کو بھی در پردہ اس بات پر اکسا رہے ہیں کہ آؤ اورا س بہتی گنگا سے تم بھی نہا لو۔  امریکہ بھی اس علاقے میں مسلسل موجود ہی اس لیے ہیں کہ ا س بندر بانٹ سے وہ محروم نہ رہے۔  ورنہ اس ضمیر فروشو ں کی کلیئرنس سیل کا سارا فائدہ چین انڈیا اور روس لے جائے گا۔ تو یہ گدھ پاکستان کے اس بے جان ڈھانچے سے جان نکلنے کے انتظار میںا س کے گرد منڈلا رہے ہیں۔ صورت حال ہماری سوچوں سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ اللہ کی پناہ۔ امریکہ بھی اس کے اردگرد منڈلاتا ہی رہتا تھا اور اب تو عین اندر گھس کے بیٹھ چکا ہے۔ اور یہ سب انہی ضمیرفروش وطن فروش منافقوں کی بے ایمانی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے اپنی اقتدار کی ہوس کی طمع کا دوزخ بھرنے کے لیے اپنے ایمان کا سودا کیا۔ ا ور نتیجتہً  پاکستان اس حال کو پہنچا۔
آج پاکستان میں کیا اور کون محفوظ ہےِ؟ کیا اس دن کے لیے لاکھوں انسانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیے تھے۔ صرف سڑسٹھ برس کا نوخیز پاکستان ایک نہایت خرد سالہ بوڑھے کا روپ دھار چکا ہے جس کو کئی مہلک عوارض لاحق ہیں اور اس کے اپنے اس  کا ایک ہاتھ بھی کاٹ چکے ہیں اور اب  اس کی رگوں سے اس کے خون  کا آخری قطرہ‌ بھی نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ کیا یہ دیس ہمارا ہے؟  کیا اس کا خواب علامہ قبال نے دیکھا تھا؟ کیا حب نبوی   صلیّ اللہ علیہ و آلہہ وسلم  کا دعویی رکھنے والے ایسا کر سکتے ہیں؟ ۔ اور اگر یہ واقعی محبان رسول    صلیّ اللہ علیہ و آلہہ وسلم  ہوتے تو اس حال کو پہنچتے؟ فاعتبر یا اولی ابصار۔
  آنسہ مسعود

Categories: Asia, Pakistan

2 replies

Leave a Reply