India: Eminent Urdu writer Joginder Paul passed away

Joginder Paul Passed Away – 1925 – 2016 

Eminent Urdu novelist & short story writer Joginder Paul passed away in India on 23 April 2016. He was famous for his unique style in this genre. He was born 5th September 1925 in Sialkot, emigrated to Nairobi but moved back to India. We offer our condolences to his sons Sudhir and Suneet and daughter Sakrita and other relatives. Below are some pictures with Haider Qureshi, a prominent Urdu writer from Germany.                                                                                                                                  Zakaria Virk

Joginder Paul – Urdu Writer: The South Asian Literary Recordings Project (Library of Congress New Delhi Office)

The noted Urdu fiction writer Joginder Paul was born in Sialkot in present day Pakistan and migrated to India at the time of Partition. His mother tongue is Punjabi, but his primary and middle school education was in Urdu medium.

He did his M.A. in English literature, which he taught until he retired as the principal of a post-graduate college in Maharashtra. Mr. Paul chose to put his creative expression in Urdu language, as he believes that Urdu is ‘not a language but a culture’ and for him writing is to be in the culture. He was part of the Progressive Urdu Writers’ Movement.

Mr. Paul’s nineteen fictional works are widely read not only in India but also in Pakistan. In all his writings he exposed social ills and all his characters are full of life and their struggles. He has won all the important awards that an Urdu writer can achieve.

Among his works, Dharti ka lal (1961), Main kyun socum (1962), Mati ka idrak (1970), Khudu Baba ka maqbara (1994), Parinde (2000), Bastiyan (2000) (all short stories), Amad va raft (1975), Bayanat (1975) (both novelettes), Be muhavara (1978), Be irada (1981) (both short fiction), Nadid (1983), Khavab-i-rau (1991) (both novels) are most sought after.

The Library of Congress has acquired twenty-two works by and about him.

اردو فکشن کی عظیم شخصیت معروف ومنفرد افسانہ نگار،

ناولٹ و ناول نگار،افسانچہ نگار ، جوگندر پال وفات پا گئے

اردو کے علمی و ادبی حلقوں میں یہ خبر نہایت رنج و غم کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ اردو ادب کی ممتاز شخصیت اور اردوفکشن میں بالکل منفرد نوعیت کے افسانہ نگار، ناولٹ نگار اورناول نگار جوگندر پال آج ۲۳اپریل ۲۰۱۶ء کو انڈیا کے وقت ساڑھے گیارہ بجے وفات پا گئے ہیں۔خدا ان کی روح کو سکون عطا فرمائے ۔بھابی کرشناپال،ان کے دونوں صاحبزادوں سدھیر اور سنیت اورصاحبزادی سکریتااور دیگر پسماندگان کو صبر عطا فرمائے۔آمین
جوگندرپال ۵ ستمبر ۱۹۲۵ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔قیام پاکستان کے بعد انہیں ہندوستان جانا پڑا۔ وہاں سے انہیں نیروبی جانا پڑا اور پھروہ ہجرتوں کے دکھ سہتے چلے گئے۔انہوں نے اپنی زندگی کی ساری ہجرتوں کو نئے جنم کی صورت میں بیان کیا تھا۔اس سلسلہ میں ان کی ایک شاہکار تحریر’’خود وفاتیہ‘‘کا ایک اقتباس یہاں درج کر دیتا ہوں۔
’’یقین کیجئے کہ مجھے اپنے پچھلے چاروں جنم ہو بہو یاد ہیں۔ پہلے میں سیا لکوٹ میں پیدا ہوا اور بائیس برس تک جیا۔ پھرانبالہ میں میری پیدائش ہوئی اور ابھی میں کوئی ڈیڑھ برس کا ہی تھا کہ میرا انتقال ہو گیا اور میں نے نیروبی میں آنکھ کھولی۔ اورنگ آباد میں میرے چوتھے جنم کے دوران میرے ایک دوست صفی الدین صدیقی نے مجھے بتایا کہ تمھارے پُرکھے ضرور کبھی نہ کبھی یہیں آبسے ہوں گے اور یہیں ڈھیر ہوئے ہو ں گے ورنہ تم سمندر پار سے ایک یہیں کیوں آتے؟۔۔۔۔۔۔ اجنتا ایلورا کی بعض تصویروں
میں ڈھیروں عام لوگوں کے اجتماع بھی شامل ہیں۔ میں ان لوگوں میں سے ہراک کے چہرے پر نظریں گاڑ کر سوچتا یہی میرا پہلاپُرکھ تو نہیں جو قدروں سے قطع نظر صرف پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے بڑی معصومیت سے کرشن یا کنس کے ساتھیوں میں شامل ہو گیاتھا اور اب اپنے اس پانچویں جنم میں دلی آ پیدا ہوا-“

         جوگندرپال کا تخلیقی کام اتنا زیادہ،اہم اور قابلِ قدر ہے کہ اس کی قدروقیمت کا اندازہ لگانے کے لیے نئے سرے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔جدید فکشن میں سب سے اہم اور بڑے فکشن رائٹر کا فیصلہ کرنے کے لیے سابقہ فیصلوں پر ایماندارانہ نظر ثانی کی ضرورت ہے۔۔۔مجھے امید ہے کہ جوگندر پال کی وفات کے بعد ہمارے علمی و ادبی حلقوں میں اس کام کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے محنت اور دیانت کے ساتھ ایسا کرنے کی کاوش کی جائے گی۔سرِ دست یہاں جوگندر پال جی کو یاد کرتے ہوئے
ان کے آخری ناول ’’پار پرے‘‘پر اپنا مختصر سا مضمون اور ان کے ساتھ لی گئی اپنی چند یادگار تصویریں احباب کے ساتھ شئیر کررہا ہوں۔
حیدر قریشی(جرمنی سے

Categories: India, The Muslim Times

1 reply

  1. I had privilege of being a student of paul sir at s.B.college Aurangabad when i did my B.A. special at said college. He used to teach our batch one subject viz. Short story of English literature. His teaching skill was marvellous and mesmerizing which made a deep imprints in the mind of students. He was unforgettable and inspiring person, a perfect ideal teacher. Today i knew about his sad demise and pay my humble tributes to his memory.

Leave a Reply