یہ شیشے ٹوٹنے نہ پائیں

راشد احمد بلوچ
rashid_blouch@yahoo.com
اس واقعہ کو تاریخ کی آنکھ نے آج سے چودہ سو سال قبل دیکھا اور آنی والی نسلوں کی بھلائی اور رہنمائی کے واسطے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے دامن میں محفوظ کر لیا ۔رسول خداﷺ کا قافلہ صحرا ئے عرب کی بے کراں وسعتوں کو چیرتے ہوئے اپنی منزل مقصود کی جانب رواں دواں تھا۔اچانک قافلے میں سے ایک اونٹ کو ٹھوکر لگی اور آپ ﷺ اور آپ کی زوجہ محترمہ سواری سے نیچے گر پڑے۔جاں نثار صحابہؓ فورا آپ ﷺ کی جانب لپکے تا آپ کی مدد کر سکیں۔ آپ ﷺ نے اس نازک موقعہ پر فرمایاکہ مجھ سے پہلے مستورات کی خبر گیری کرو یعنی میرے ساتھ ایک عورت بھی تھی جو میرے ساتھ ہی سواری سے گری ہے‘پہلے اس کی خبر گیری کرو۔اگر ہم آپﷺ کے زبان مبارک سے ادا ہونے والے اس عربی جملہ کا آزاد ترجمہ کریں تو وہ کچھ یوں ہوگا کہ ladies firstیعنی عورتوں کی خبر گیری اور ان کی رکھوالی کا مقام مردوں سے پہلے ہے۔یورپ آج جس جملہ پر نازاں ہے یہ جملہ مسلمانوں کے پیشوا نے سینکڑوں سال قبل خوبصورت تعلیم کی شکل میں مسلمانوں کے گوش گذار کر دی تھی۔پر ہم کچھ ایسے بگڑے کہ اب بننا نظر آتا نہیں ۔
یہ دوسرا واقعہ آج کے نام نہاد اور ترقی یافتہ مہذب معاشرے کاہے۔میاں بیوی میں کسی بات پر چپقلش ہوئی اور نوبت لڑائی تک جا پہنچی۔بیوی اپنے شوہر سے روٹھ کر میکے جابیٹھی۔اناکے غلام اور غصہ میں پھنکارتے مرد نے تیزاب کی بوتل ہاتھ میں پکڑی اور سسرال پہنچ گیا۔آتش غیظ وغضب کے ہاتھوں اندھا ہوکرانسانی جلد کو لمحوں میں گلا دینے والی تیزاب کی بوتل اپنی اس بیوی کے منہ میں انڈیلنی چاہی جس کو اس کے ماں باپ نے صد ہا ارمانوں کے ساتھ پال پوس کر بڑا کیا تھا۔منہ میں بوتل انڈیلنے میں ناکامی پر پوری بوتل اپنی اس وفا شعار بیوی کے چہرے پر انڈیل دی جس چہرے کی تعریفیں کرتا وہ تھکتا نہیں تھا ۔صنف نازک اور ناز نخروں میں پلی اپنے والدین کی لاڈلی لڑکی کے منہ سے ایک دلدوز چیخ بلند ہوکر فضاؤں میں تحلیل ہوگئی۔اس کا ہنستا مسکراتا چہرہ لمحوں میں پگھل کر پانی بن گیا۔انسانیت شرم کے مارے اپنا منہ چھپانے لگی۔حیا نے اپنے بال کھول کر اس ننگ انسانیت فعل پر ما تم کرنا شروع کر دیااور شیطان اپنی ایک اور فتح پر شادیانے بجاتا ہوا کسی اور گھر کو اجاڑنے کی طرف روانہ ہو گیا۔وہ معصوم عورت عمر بھر کے لئے معذور ہوگئی۔ اور تکالیف کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اس معصوم جان کے درپئے آزار ہوگیا۔ ستم کی انتہاء ہے کہ اس نازک کلی پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں جس کی رکھوالی اور دلداری کی نصیحت تمام تہذیبوں میں یکساں پائی جاتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ظالم اپنے اس فعل پر قطعا شرمندہ نہیں‘اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی پچھتاوا اس جاہل
کے دل میں بے چینی پیدا کرتا ہے۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
یہ اور اس طرح کے واقعات روزانہ ہمارے معاشرے میں وقوع پذیر ہورہے ہیں ۔آئے دن معصوم لڑکیاں مردوں کی اس بے رحمی کا شکار ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معذور اور لاچار ہو جاتی ہیں ۔نہ کوئی ان حرماں نصیبوں کی خبر گیری کرنے والا ہے اور نہ ہی کسی مسیحا کی دست شفائی ان کے آنسو پونچھتی ہے۔یہ حرماں نصیب اپنے ہی رکھوالوں کے ہاتھوں وہ اذیت اٹھاتے ہیں کہ جس کا تصور بھی اندوہناک اور رگ و پے میں اذیت سرایت کر دیتا ہے۔عورتوں کی آزادی کے ہم جتنے بھی بلند وبانگ ودرباطن ہیچ دعاوی کریں ،مگر یہ ایک جانگسل حقیقت اور سچائی ہے کہ اس ظالم معاشرہ میں بنت حوا کل بھی مظلوم تھی اور آج بھی بے بس ہے۔
حقوق نسواں کے پرچارک بے شک بڑے بڑے سیمینار منعقد کریں ،لمبی لمبی تقریریں کریں اور میڈیا میں آکر بلند وبانگ دعاوی سے عوام کے د لوں کو گرمائیں مگر حقیقت یہ ہے کہ صنف نازک کے حالات بہت ہی تنگ اورتلخ ہیں ۔دنیا آج ستاروں سے آگے کی جہانوں کی تلاش میں سرگرداں ہے،مگر ہمارے ہاں آج بھی عورت کو بس بچے پیدا کر نے اور کھانا پکانے سے زیادہ حقوق نہیں دیئے جاتے۔دنیا میں عورتیں آج مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر خیرہ کن ترقیات میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں ،مگر ہمارے اس نام نہاد اسلامی معاشرے میںآج بھی عورتوں کی شادی صرف اس بناء پر قرآن مجید سے کر دی جاتی ہے کہ جاگیرداروں اور وڈیروں کی جاگیریں ان کے خاندان میں ہی رہیں۔ہم ہی پر کیا موقوف برادر اسلامی ملک سعودی عرب میں ابھی تک عورتوں کی ڈرائیونگ پر پابندی ہے۔
ویسے ہم خود کو قابل فخر مسلماں کہلانے میں کسی قسم کی کوتاہی فروگذاشت نہیں ہونے دیتے اور مغرب کے ’’کفار‘‘کو قابل گردن زنی گردانتے ہیں ،مگر انھوں نے ہماری ہی تعلیمات پر عمل کر کے عورتوں کو ان کے جائز حقوق دیئے ،اسی کانتیجہ یہ ہے کہ آج وہاں عورت بھی اتنا ہی کردار ادا کر رہی ہے جتنا کہ مرد،مگر اک ہم ہیں کہ عورت کو اسکا حق دینا تو درکنار،ہم اتنے ظالم ہیں کہ اس کے معصوم چہرے کو تیزاب سے جھلسا دیتے ہیں ۔ستم ظریفی کی انتہاء ہے کہ جن نازک کلیوں کو نرمی اور ملائمت سے چھونے کا حکم تھا ہم انھی نوخیزکلیوں کو صرف اپنی انا کی تسکین کی خاطر پیروں تلے کچل دیتے ہیں اور اس کے باوجودہمارا دعوی یہ ہے کہ ہم علم وہنر کے وارث اور تہذیب وتمدن کے معمار ہیں۔تف ہے ایسے علم پر جسے پڑھ کر انسان معصوم چہروں پر تیزاب پھینکتا پھرے۔خوف خدا ہمارے معاشرے سے رخصت ہو گیا ہے۔ورنہ اگر ہم جانتے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے تو شاید اس درندگی سے ہاتھ کھینچ لیتے،مگر فکری بانجھ کے شکار کلر زدہ معاشرے بھلا فنا ہونے سے قبل سبق سیکھتے ہیں ۔ظلم کا شکار معاشرے صفحہ زمین سے حرف غلط کی طرح مٹا دیئے جاتے ہیں ۔یا ظلم مٹے گا دھرتی سے یا دھرتی خود مٹ جائے گی!!!
جس محسن انسانیت کو ہم اپنا پیشوا مانتے ہیں اس نے ایک ایسے معاشرہ میں عورتوں کے حقوق قائم فرمائے جہاں عورتوں کو جانوروں سے بھی بدتر گردانا جاتا تھا،مگر اس رحمت عالم نے اپنی لائی ہوئی پاکیزہ تعلیم سے مردوں کے اس معاشرہ میں عورتوں کے برابر حقوق قائم کئے بلکہ عورت کو عزت کے اس درجہ پر بٹھا دیا کہ خواتین قیامت تک ا س رتبہ پر فخر کرتی رہیں گی۔آپﷺ نے فرمایا’’جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے‘‘آپ نے خود اس طور پر اس تعلیم پر عمل پیرا ہو کر دکھایاکہ عورتیں کتنی قابل احترام ہیں ۔
ایک سفر میں اونٹوں پر آپﷺ کی ازواج مطہرات سوار تھیں ۔اونٹوں کو ہانکنے والے نے اونٹوں کو تیز ہانکنا شروع کر دیا تا فاصلہ جلد از جلد طے ہو۔آپﷺ نے اس سے فرمایا تیرا بھلا ہو ذرا آہستہ ہانکو۔دیکھتے نہیں اونٹوں پر ناز ک شیشے سوار ہیں ۔ان آبگینوں کو ٹھیس نہ پہنچنے پائے۔یہ شیشے ٹوٹنے نہ پائیں ،سواریوں کو آہستہ ہانکو!!!یہ تھا اس محسن انسانیت کا نمونہ جس کو آج ہم نے پس پشت ڈال کر یکسر فراموش کر دیا ہے۔خدا رحم کرے اس قوم پر جن کا پیشواﷺ عورتوں کو نازک شیشے قرار دے کر ان کی حفاظت کی تلقین کرتا ہے اور ان کی دلداری کرتا تھا اور یہ عورتوں پرتیزاب پھینک کر اپنی محفلوں میں بیٹھ کر فخر کے ساتھ دوستوں کو کہانیاں سناتے ہیں۔
معاشرے جب زوال پذیر ہوتے ہیں تو ان میں صدہا قسم کی قباحتیں راہ پا جاتی ہیں ۔جہان ظالم و جابر حکمرانوں کی اپنی بہو بیٹیاں غیر ملکی اداروں میں تعلیم پاتے ہوں اور ان کی رعایا کی معصوم بیٹیوں کو تیزاب کی آگ میں جھلسا دیا جاتا ہو،وہاں آخر خدا کی ناراضگی کے علاوہ اور کس چیز کی امید رکھی جائے۔عدل و انصاف سے عاری کرپٹ معاشروں میں جہاں سزا یافتہ وزیر اعظم پورے جاہ و حشمت کے ساتھ غیر ملکی دورے کرتا ہو اور پیچھے سسکتی بلکتی عوام اندھیروں میں ٹھوکریں کھا رہی ہو ایسے معاشرے بہت جلد اپنے منطقی انجام سے دو چار ہو جاتے ہیں ۔
ہمیں بنت حوا کے سامنے یہ اقرار کر لینا چاہیے کہ ہم اس کے حقوق کی حفاظت نہیں کر سکے ۔نہ اسے صحیح تعلیم دے سکے اور نہ ہی اسے جائز عزت وتحفظ دے سکے۔ہم اس کے حقوق کی حفاظت کرنے میں تو ناکام ہوئے ہی ساتھ ہی اس کے معصوم اور پاکیزہ چہرہ کو بھی تیزاب کی ظالم لہروں سے نہ بچا سکے۔وہ اک رحمت عالمﷺ تھا جس نے عورتوں کے حقوق کی حفاظت یوں کی کہ اسکی چاشنی آج تک عرب کے صحرا میں گھلی ہوئی ہے۔ شاعرہ نے ان احسانات کا اقرار ان الفاظ میں کیا ہے کہ
وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتا ہے
تو بھی انساں کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے
بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار
پاک محمدمصطفیﷺ سب نبیوں کا سردار

Leave a Reply