رحم فرما رحم فرما رحم فرما اور دنیا آخرت کی بلاؤں سے بچا

سید شمشاد احمد ناصر مربی سلسلہ امریکہ

        دنیا کی تمام آبادی ،تمام مخلوقات اس وقت جس کرب اور پریشانی اور بلاء اور  بیماری سے گزر رہے ہیں وہ ہر ایک پر عیاں ہے یہ بلاء اور بیماری گھروں کو  اجاڑ رہی ہے ،شہروں  کو ویران کر رہی ہے، ہر شخص کسی نہ کسی آزمائش میں اس سے متاثر ہے تو جو بھی حفظ ماتقدم کے طور پر تدابیر ہو سکتی ہیں وہ اختیار کرنی چاہیں۔  اور اس میں سب کا فائدہ ہے، آج کل کچھ باتوں کی طرف خاص طور پر زور دیا جارہا ہے مثلا سوشل دوری رکھیں، ایک دوسرے کے درمیان 6-7 فٹ کا فاصلہ رکھا جائے۔

        ہاتھوں کو بار بار دھویا جائے ، چھینک یا کھانسی آنے پر منہ کو ڈھانپا جائے اور اگر ایمرجنسی میں باہر گئے ہیں تو واپس آکر فورا کپڑے بدل لیں،  نہا لیں ، ماسک مل جائے تو اسے بھی پہنیں ، احتیاطی تدابیر میں روزمرہ استعمال کی چیزوں میں یا خریدو فروخت میں بھی بہت احتیاط کی ضرورت ہے ۔ مثلاآپ کے گھر روزانہ ڈاک بھی آتی ہوگی، اسے احتیاط سے کھولیں بہتر ہے کہ  10-12 گھنٹے انتظار کر لیں، حضرت مسیح موعودؑ کا اپنا عمل بھی اسبارہ میں یہ تھا کہ اگر ایسے علاقہ سے ڈاک اور خطوط آئے ہیں جہاں وباء پھیلی ہوئی ہوتی ، یا طاعون کی بیماری ہے، تو ڈاک کھولنے کے فوراً بعد آپ ہاتھ دھو لیتے تھے۔ یہی طریق ہمیں بھی اپنا نا چاہئے۔

اسی طرح جب آپ سٹورز میں جاتے ہیں کبھی دروازہ کھولتے ہونگے، یا جن شیلف میں چیزیں پڑی ہیں انہیں ہاتھ لگاتے ہیں، سب جگہ احتیاط کی ضرورت ہے بہتر ہے کہ گھر سے Wipes ساتھ لے کر جائیں ، اور صاف کرلیں اور واپس آتے ہی سب سے پہلے ہاتھ اور کپڑے صاف کریں۔ وغیرہ وغیرہ

        یہ سب باتیں بہت ضروری ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان باتوں کے کرنے کی ضرورت نہیں ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں دین ہمارا سہارا ہے  اس نے ہمیں محفوظ رکھنا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے مگر ساتھ ہی اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اونٹ کا گھٹنا پہلے باندھیں پھر توکل کر یں یہ بھی اسلام کا ہی بتایا ہوا طریق ہے جس کی طرف ہمارے رسول خدا ﷺ نے راہنمائی فرمائی ہے ۔

ان تمام امور کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ خداتعالی کے حضوربھی جھکا جائے۔ کیونکہ جو تدبیر بھی آپ نے یا میں نے یا ہم سب نے کرنی ہے اس میں اثر پید ا کرنا تو اللہ تعالی ہی کا کام ہے ۔  ان چیزوں پر کار بند ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کا در ہی کھٹکھٹانا ہے ۔

اگر کسی تدبیر پر ہی بھروسہ کرینگے۔ تو وہ شرک کا رنگ اختیار کرسکتی ہے۔ اسلئے اس تحریر کے ذریعہ چند دعائیں اور ان کی اہمیت کے بارے میں خاکسار توجہ دلانا چاہتا ہے ۔

گزشتہ کئی خطبات میں ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے جماعت کو جہاں بار بار احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں اس امر کو بخوبی واضح فرمایا ہے کہ ہمارا آخری ہتھیار اور حربہ دعا ہی ہے  اور باربار دعاؤں کی طرف توجہ دلائی ہے ۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی ایک دعا

حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب  کے نام اپنے ایک مکتوب میں دعا کی تلقین کرتے ہوئے یہ لکھا کہ “دعا بہت کرو اور عاجزی کو اپنی خصلت بناؤ” خداتعالی کے حضور میں دعا کرو۔

“اے رب العالمین تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کر سکتا، تو نہایت ہی رحم و کریم ہے اور تیرے بے غائیت مجھ پر احسان ہیں میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما۔ اور مجھ سے ایسے عمل کر اجن سے تو راضی ہو جائے میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دنیا و آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا ۔ کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے ۔ آمین ثم آمین )خزینۃ الدعا    ادعیۃ المہدی صفحہ 29(

حضرت ابو بکر  نے نماز میں پڑھنے کے لئے آنحضور ﷺ سے کوئی دعاسکھانے کی درخواست کی حضور ﷺ نے جو دعا سکھائی اسمیں خاص طور پر خدا کی رحمت اور مغفرت طلب کی گئی ہے ۔

اسلئے قرآن کریم کی یہ دعا کثرت سے پڑھیں:

رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ ۔(المومنون:119)

ترجمہ : اے میرے رب معاف  کر   اور رحم کر اور تو سب سے اچھا رحم کرنے والا ہے۔

 حضرت ایوب ؑ کی دعا بھی قرآن کریم میں یوں مذکور ہے :

أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ۔(الانبیاء:84)

اے میرے رب ! میری یہ حالت ہے کہ مجھے تکلیف نے آپکڑا ہے اور اے خدا تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔

(خزینۃ الدعاءص18-22)

حضرت عبداللہ بن عباس  بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ مصیبت کے عالم میں یہ کلمات دہراتے تھے:

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ العَظِیْمُ الْحَلِیْمُ. لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ العَرْشِ العَظِیْمِ. لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَ رَبُّ الْاَرْضِ وَ رَبُّ العَرْشِ الکَرِیْمِ

ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ عظیم اور بڑے حلم وا لا ہے ، اسکے سوا کوئی معبود نہیں وہ عظیم عرش کا رب ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آسمان زمین کا رب ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش کریم کا رب ہے ۔

ابتلاء کے وقت کی دعا

حضرت ابو ہریرۃ  فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو جب کوئی کٹھن امر درپیش ہوتا تو آپﷺ یہ دعا کرتے :

اللهمَّ إنِّي أعُوذُ بِكَ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ، وَسُوءِ الْقَضَاءِ، وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ

ترجمہ : اے اللہ ! میں ابتلاء کی مشکل سے اور بدبختی کی پکڑ سے اور تقدیر شر اور دشمنوں کے اپنے خلاف خوش ہونے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

(خزینۃ الدعاص75-76)

امراض سینہ کا علاج

حضرت خلیفۃ المسیح الاول  نے سورۃ الناس کی تفسیر میں یہ ارشاد فرمایا ہے ۔

“میں خیال کرتا ہوں کہ امراض سینہ مثلا سِل، کھانسی وغیرہ کے واسطے اس سورہ شریفہ میں ایک دعا ہے ۔ کیوں کہ آج کل ڈاکٹر وں نے یہ تحقیقات کی ہے کہ پھیپھڑے میں ایک باریک کیڑے ہوتے ہیں جن کو جرمز کہتے ہیں۔ جب وہ پیدا ہو جاتے ہیں تب پھیپھڑا زخمی ہو کر سِل کی بیماری اور کھانسی پیدا ہو جاتی ہے ۔ جن بھی ایک باریک اور مخفی شئے کو کہتے ہیں۔ اس سورۃ میں ان اشیاء کے شر سے پناہ چاہی گئی ہے  جو سینہ کے اندر ایک خرابی پیدا کرتے ہیں۔ ناظرین اس کا تجربہ کریں۔ لیکن صرف جنتر منتر کی طرح ایک دعا کا پڑھنا اور پھونک دینا بے فائدہ ہے ، سچے دل کے ساتھ یہ سورۃ بطور دعا کے مریض اور اسکے معالج اور تیمار دار پڑھیں اور مریض کے حق میں دعا کریں تو اللہ تعالی غفور رحیم ہے اور بخشنے والا ہے   میں امید کرتا ہوں کہ ایسے بیماروں کو اس کلام پاک کے ذریعہ شفا حاصل ہو۔ وا للہ اعلم بالصواب”

(حقائق الفرقان جلد نمبر 4 ص587)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہو ا کرتے تو ان دونوں سورتوں (قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ،قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ) کو پڑھ کر دم کیا کرتے تھے۔

(حقائق الفرقان ص567)

حضرت اقدس مسیح موعو علیہ السلام فرماتے ہیں :۔

“مسیح موعودؑ کے متعلق ۔۔۔۔۔یہی لکھا ہے کہ مسیح کے دم سے کافر مریں گے یعنی وہ اپنی دعا کے ذریعہ سے تمام کام کرے گا۔ دعا میں خداتعالی نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا تعالی نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ سے ہو گا۔”

آنکھ کے پانی سے یارو! کچھ کرو اس کا علاج

جن حالات سے اس وقت سب گذر رہے ہیں اس کا ایک علاج حضرت مسیح موعودؑ نے اس شعر میں فرمایا ہے کہ:

آنکھ کے پانی سے یارو! کچھ کرو اس کا علاج

آسماں اے غافلو ! اب آگ برسانے کو ہے

یعنی اللہ تعالی کے حضور گریہ و زاری ۔ آہ وبکا کی جائے ۔ جب انسان خدا کے حضور جھکتا ہے روتا ہے ۔ دعائیں کرتا ہے۔ اپنی عاجزی وبے کسی کا اظہار خشوع و خضوع و الی نماز وں اور دعاؤں کے ساتھ کرتا ہے تو خداتعالی کا رحم جوش میں آجاتا ہے پھر وہ رحمت ہی رحمت نازل کرتا ہے ۔ احباب کے ازدیاد ایمان کے لئے سیرت المہدی سے ایک روایت نقل کرتا ہوں۔

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: “حضرت صاحب کے زمانہ میں اس عاجز نے نمازوں میں اور خصوصاً  سجدوں میں لوگوں کو آج کل کی نسبت بہت زیادہ روتے سنا ہے ،رونے کی آوازیں مسجد کے ہر گوشہ سے سنائی دیتی تھیں اور حضرت صاحب نے اپنی جماعت کے اس رونے کا فخر کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ جس نماز سے پہلے حضرت صاحب کی کوئی خاص تقریر اور نصیحت ہو جاتی تھی اس نماز میں تو مسجد میں گویا ایک کہرام برپا ہو جاتا تھا یہاں تک کہ سنگ دل سے سنگ دل آدمی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے تھے۔ ایک جگہ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ دن میں کم از کم ایک دفعہ تو انسان خدا کے حضور رولیا کرے۔ “

( سیرت المہدی جلد اول ص620 روایت نمبر 666)

رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث

اس ضمن میں ایک حدیث بھی درج کرتا ہوں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

سات آدمی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو، اُس دن جبکہ اُس کے سایے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا اپنے عرش کے سایہ میں جگہ دے گا۔ اور اُن میں سے ایک شخص و  ہ ہے وَ رَجُل ذَکرَ اللہ خالیاً ففاضت عیناہ

یعنی وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ  کو یاد کیا اور ( اس کے خوف سے) اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔

( ریاض الصالحین حدیث450)

اس طرح آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ” وہ شخص جہنم میں نہیں جائیگا جو اللہ سے ڈر سے رویا “

( ریاض الصالحین حدیث نمبر 449)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:

“خدا نے مجھے دعاؤوں میں وہ جوش دیا ہے جیسے سمندر میں ایک جوش ہوتا ہے ۔”

فرماتے ہیں:

“میں اتنی دعا کرتا ہوں کہ دعا کرتے کرتے ضعف کا غلبہ ہوجاتا ہے اور بعض اوقات غشی اور ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے”

(خزیتہ الدعا ادعیۃ المھدی ص15)

آج کل کے حالات میں جب کہ لوگ، فیملیز اور بچے زیادہ وقت گھروں میں گزار رہے ہیں تو زیادہ وقت دعاؤوں میں نمازوں میں ، ذکر الہی ۔استغفار ، درود شریف اور نوافل کی ادائیگی میں گزارنا چاہئے بلکہ چند لمحات علیحدگی میں بیٹھ کر بھی دعاؤں میں گزاریں۔ مجھے ایک اور روایت سیرت المہدی سے ملی ہے کہ ہر فرض نماز میں قنوت کریں۔

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں جب تک مولوی عبدالکریم صاحب  مرحوم زندہ رہے وہ ہر فرض نماز میں قنوت  پڑھتے تھے اوصبح اور مغرب اور عشاء میں جہر کے ساتھ قنوت ہوتا تھا ۔ قنوت  میں پہلے قرآنی دعائیں پھر بعض حدیث کی دعائیں معمول ہوا کرتی تھیں آخر میں درود پڑھ کر سجدہ میں چلے جاتے تھے جو دعائیں اکثر پڑھی جاتی تھیں ان کو بیان کردیتا ہوں:

رَبَّـنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ 202)

رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ (آل عمران195)

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ(الاعراف:24)

رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا(الفرقا ن:75)

رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا۔۔۔۔۔(البقرۃ:287)

رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا(الفرقان:66)

رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ(الاعراف:90)

رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ(یونس :88)

رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا۔۔۔۔(آل عمران :09)

رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ۔۔۔(آل عمران:194)

اللھم اید الاسلام وا لمسلمین بالامام الحکم العادل

اللھم انصر من نصر دین محمد وا جعلنامنہم و اخذل من خذل دین محمد ولا تجعلنا منھم

(سیرت المہدی روایت نمبر 939ص804-805)

نوٹ: آخری دو دعائیں قرآنی دعائیں نہیں ہیں۔

نمازیں اور دعائیں اگر گریہ وزاری  اورخشوع و خضوع سے ادا کی گئی ہیں تو وہ قبولیت کا درجہ پا تی ہیں۔ اسلئے خدا کے حضور جس قدر بھی ممکن ہو آنکھوں کا پانی پیش کر یں کیونکہ پانی سے روئیدگی ہوتی ہے ۔ اس دنیا کا نظام پانی کے ساتھ وابستہ ہے یعنی پانی سے ہی زندگی ہے ۔ اسلئے اس وقت آنکھ کے پانی کی ضرورت ہے۔  جس سے دائمی زندگی نصیب ہو گی۔

اس مضمون کا دوسرا حصہ حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ میں لکھتا ہوں آپ فرماتے ہیں۔

“سنو اور منہ نہ پھیرو اور خدا سے ڈرو اور اسکے حکموں کو نہ توڑو اور خدا کے لئے کھڑے ہو جاؤ اور سست مت بیٹھو اور کہا مانو۔ اور سرکشی نہ کرو اور خدا کو یاد کرو اور غفلت چھوڑ دو ۔ اور سب مل کر خدا کی رسی کو پکڑ لو، اور فرقہ فرقہ نہ بنو اور اپنے نفسوں کو پاک کرو، اور میلے کچیلے نہ رہو ۔ اور اپنے باطنوں کو پاک کرواور آلودگی سے بچو ، اور اپنے رب کی عبادت کرو، اور شرک نہ کرو اور “صدقے دو اور بخیل نہ بنو” اور آسمان پر چڑھنے کی کوشش کرو اور زمین کی طرف نہ جھکو اور ضعیفوں پر رحم کرو ۔ تاکہ تم پر بھی آسمان میں رحم کیا جائے۔

دوسرو ں کے لئے دعا

 جہاں آپ اپنے لئے دعائیں کر رہے ہیں۔ وہاں دوسروں کے لئے دعائیں کرنا خصوصیت کے ساتھ جو پریشان ہیں۔ بیمار ہیں۔گھبراہٹ میں ہیں یا جو آپ کو دعا کے لئے کہہ رہے ہیں ان کو بھی بطور خاص اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کیونکہ اپنے بھائی کے لئے دعا اسکی غیر حاضری میں قبولیت کا درجہ پاتی ہے۔ بلکہ اپنے بھائی کے لئے دعا آپ کے لئے بھی قبولیت دعا کا خاصہ رکھے گی۔

ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں :

حضرت ابو درداء بیان فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو مسلمان اپنے بھائی کے لئے اسکی غیر حاضری میں ( پیٹھ کے پیچھے ) دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے، تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو۔

حضرت ابو درداء سے ہی روایت کہ رسول اللہ ﷺفرمایا کرتے تھے کہ ایک مسلمان بھائی کی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لئے اسکی غیر حاضری میں کی ہوئی دعا قبول ہوتی ہے اس کے سر ہانے ایک فرشتہ مقرر ہے وہ جب بھی اپنے بھائی کے لئے اسکی بھلائی اور خیر خواہی ک لئے دعا کرتا ہے تو اس پر مقرر فرشتہ کہتا ہے آمین یعنی اے اللہ اسکی دعا قبول  فرما اور تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو۔ آمین

(ریاض الصالحین حدیث 1495-1496)

 پس اس مشکل وقت میں اپنے بھائیوں کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں یہ بھی قبولیت دعا کا موجب ہو گا۔ اور ہمارے پیارے امام سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ نے اپنے ہر خطبہ میں عوام الناس کے لئے بھی خصوصیت سے دعا کی تحریک کی ہے ۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ۔

( مجموعہ اشتھارات جلد سوم ص466-447)

پس جہاں خدا تعالی کے حقوق کی ادائیگی ہے وہاں حقوق العباد کی بھی ان دنوں میں کوشش کے ساتھ ادائیگی کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے ۔ بہت سارے لوگوں کو ہماری مدد کی ضرورت ہوگی۔ حتی الوسع جسقد ر بھی ممکن ہو سکے مدد کریں۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایاہے ۔ صدقہ دو اور بخیل نہ ہو، آنحضرت ﷺ نے تو فرمایا الصدقۃ تطفی غضب الرب  ۔۔۔۔۔ خدا کے غضب کو دھیما کرتا ہے صدقہ دینا ، بلکہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔

ایک حدیث

آنحضرت ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی مومن کی دنیا کی تکلیفوں میں سے کویہ تکلیف دور کرے اللہ تعالی قیامت کے دن کی تکالیف میں اسکی تکلیف کو دور کرے گا۔ اور جو کسی تکلیف زدہ تنگدست کے لئے سہولت پیدا کرے اللہ تعالی اس کے لئے دنیا و آخرت میں آسانی پیدا فرمائے گا ۔ اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے اللہ تعالی اس کی دنیا و آخرت میں پردہ پوشی فرمائے گا اور اللہ بندہ کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے”

(ہمارے پیارے نبی کی پیاری باتیں ص10مصنفہ بنت محمود)

Leave a Reply